news ticker

عالمی بنکو نے کورونا وبا پرقابو پانے کے لیے پاکستان کے لیے 20 کروڑ ڈالر امداد کی منظور ی دیدی ہے

Friday, 3 April 2020

سماجی وثقافتی اقدار کس طریقے سے کراچی میں امن و برداشت کو فراغ دے سکتے ہیں۔۔۔



کسی بھی معاشرے کی خوشحالی ،ترقی و کا میابی کا رازاس معاشرے کے امن و امان اور لوگوں میں ایک دوسرے کے لیئے مذہبی،ثقافتی اور سماجی جذبات رکھنے پر منحصر ہے۔ہمارا کراچی جو پاکستان کا سب سے بڑا شہرہے معیشت کے اعتبار سے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔اس شہر میں مختلف رنگ و نسل اور قومیت کے لو گ آباد ہیں۔ یہ شہر اپنے آپ میں ایک چھوٹا پاکستان ہے جہاں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں۔کراچی شہر میں امن و امان دیکھنے کے لیئے تو جیسے آنکھیں ترس سی گئی ہیں اس شہر میں امن و امان نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں جس کے بارے میں کچھ اہم شخصیات تذکرہ کرتی نظرتو آتی ہیں مگر اس شہر میں امن و برداشت کو کس طرح فروغ دیا جاسکتا ہے اس پر بہت کم لوگ ہی تذکرہ کرتے ہیں کیوں کہ ان شخصیات کا مقصد اس شہر میں امن و برداشت کو پروان چڑھانا نہیں بلکہ رنگ و نسل کے اعتبار سے تعصب کو فروغ دینا ہے۔

ہمارا ثقافتی اقدار ہماری زبان،رسم و رواج ،فن خطاطی ،لباس اور رہن سہن میں چھپا ہوا ہے ہم اپنی ثقافت کی وجہ سے ہی دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں لیکن اس موجودہ دور میں ہم نے اپنی ثقافت کو بہت دور چھوڑ دیاہے اور اس میں بہت سی تبدیلیاں پیدا کر لیں ہیں اپنی ثقافت کوبھلا کر مغربی طرزِ عمل اختیار کرلیاہے جو کہ ہماری بربادی کا سبب ہے۔ہم نے اپنے لباس و رہن سہن کو مغربی طرز کے لحاظ سے ڈھال لیا ہے ہم اپنی ثقافت کے فروغ کے ذریعے ہی لوگوں میں محبت و بھائی چارے کو پروان چڑھا سکتے ہیں جس سے ہمارا معاشرے میں امن و برداشت کو فروغ مل پائے گا۔اور دوسری طرف اگر سماجی اقدار کی بات کی جائے تو سماجی اقدار کسی بھی معاشرے کی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے اقدار ہی معاشرے کے استحکام کے لئے جواب دے ہوتا ہے سماجی اقدار معاشی انتظام کو چلانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔بنیادی حقوق،حب الوطنی،خدمت خلق ،قربانی، معقولیت ،انفرادیت،مساوات،جمہوریت،وغیرہ۔۔یہ تمام سماجی اقدار کے عناصر ہیں۔

کراچی شہر میں امن و امان کو فروغ د ینے کے لئے ضروری ہے کہ ہر فرد سماجی و ثقافتی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے ملک سے وفادارہوکر اپنی ذمہ داریاں اور فرائض انجام دے تاکہ معاشرے میں بے تر تیبی اور بے ضابطگی نہ پھیلے۔اپنے مفاد کے ساتھ دوسرے شہریوں کے مفاد کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جائے ۔شہر کراچی میں مختلف مذاہب ، رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں جن کی ثقافت جدا ہیں لیکن سب سے پہلے تو لوگوں میں الگ الگ قومیت اور رنگ و نسل کے تعصب کو ختم کرنا ہوگا۔کراچی میں امن و امان نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ تو یہی ہے۔سندھی ہو یا پنجابی ہو، مہاجر ہو یا پٹھان ،شیعہ ہو یا سنی یا جو بھی قومیت و ر نگ و نسل ہو یہ سوچنا بے حد ضروری ہے کہ اس ملک میں رہنے والے تمام اقوام سب پاکستانی ہیں ایک ملک و قوم سے تعلق رکھتے ہیں تمام رنگ و نسل کے اقوام کو چاہیئے کہ وہ ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کا احترام کریں اور اپنے سماجی و ثقافتی اقدار کے ذریعے لوگوں میں ملک و قوم سے محبت کے جذبے کو فروغ ویں۔انصاف پر مبنی معاشرہ ہی ترقی کرسکتا ہے جس میں رنگ و نسل ، قومیت سے با لا تر ہوکر کام کر نا ہی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔اس شہر میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ہم آہنگی بہت ضروری ہے جس معاشرے میں مذہبی ہم آہنگی نہیں ہوگی وہ معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔

سماجی اقدار کی ایک اہم مثال مرحوم عبدالستار ایدھی کی موجود ہے جنہوں نے اپنی زندگی کو لوگوں کی خدمات کے لئے وقف کر ویا انکا مقصد صرف سماجی خدمت تھا ایسی شخصیت کا ہمارے معاشرے میں ہونا باعث فخر ہے ہمیں ایسی ہی شخصیات کو اپنی زندگی میں ملحوظ رکھتے ہوئے ویسا ہی طرزعمل اختیار کرنا چاہیئے۔اس وقت شہر کراچی میں جتنی بھی سماجی تنظیمیں ہیں ان سب تنظیموں کو چاہیئے کہ وہ فعال ہوکر کام کریں۔کاروکاری،نا بالغ لڑکیوں کی شاوی کرنا،غلط کاریہ،معصوم بچوں کا اغوابرائے تاوان کرنا،خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے جیسی برائیاں جو معاشرے میں ہیں انکو جب ختم کٰٰٰیاجاسکتا ہے جب تمام سماجی تنظیمیں فعال ہوکر کام کرنا شروع کریں گی لوگوں کو ا نصاف ملے گااور اِن تمام برائیوں کا خاتمہ کیا جا سکے گا۔

تمام مذہبی و سیاسی جماعتوں کے لیڈرز کو چاہیئے کہ آپس میں مل کر شہر کراچی کی ترقی کے لئے کام کریں بجائے اس کے ایک دوسرے کی برائیاں اور کمزوریاں لوگوں کے سامنے بیان کریں کیوں کہ اس عمل سے معاشرے میں بگاڑاور لوگوں میں تعصب پھیلتا ہے اس کے برعکس سب کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے ہر ایک قوم اور مذہب کو عزت دی جائے اور انسانیت کے تحت تمام غریبوں ، مسکینوں اور یتیموں کی مدد کی جائے تاکہ شہر کا ہر فرد اس معاشرے میں امن و سکون سے زندگی گزار سکے۔

کراچی میں سما جی و ثقافتی اقدار کے ذریعے امن و برداشت کے فروغ کا یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کو چاہیئے کہ وہ اس بات کا تہیہ کر لیں کہ وہ پاکستانی ہیں ایک قوم ہیں۔ایک پاکستانی کی حثیت سے ملکی مفادات کے خاطر کام کریں تاکہ ملک میں امن و امان قائم ہو اور آپس میں محبت پروان چڑھے ۔
بقول علامہ اقبال:                                           افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملت کے مقد ر کا ستارا 

تحریر:انیقہ معین

Saturday, 20 April 2019

کیا آپ ذہنی دباؤ کم کرنا چاہتے ہیں ؟


کتاب ایک خزانہ
اگر آپ کتا ب کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اور کتابیں پڑھنے کا ذوق و شوق رکھتے ہیں آپ کتا ب ختم کرنے یا پڑھنے کے لئے رات دیر مطالعہ کرتے ہیں تو آپ کو چاہیئےکہ آپ ایک ایسی کتاب کا مطالعہ کریں جو آپ کی شخصیت پر گہر ے اثرات مرطب کرے جو آپ کو ہفتوں تک سوچنے کے لئے مجبورکر دے اور آخر میں آپ خو دکو ایک اچھا انسان محسوس کریں ۔
 

کتاب ایک بہترین دوست ہے جو خاموشی سے آپ کے ساتھ رہتی ہے اور بغیر آپ کا معائنہ کیےآپ کو ایک اچھی نصیحت بھی کر تی ہے
کتابیں ایک ایسا تجربہ ہے جو آپ کو وہ سکھاتا ہے جو حقیقی زندگی سکھا سکتی ہے
مطالعہ کرنا ایک ایسی عادت ہے کہ جتنا ہم جانتے ہیں اس سے ذیادہ فوائد فراہم کرتی ہے لحاظہ اب ہم مطالعہ کتب کے فوائد جانتے ہیں ۔
۰کتاب کا مطالعہ جو آپ کی زبان کی صلاحیت کو بڑھاتا ہے چاہے آپ اپنے دوست کو ای میل لکھ رہے ہو یا اپنی کلاس کے سامنے اسپیچ دے رہے ہوں ۔
۰زبان ایک ذریعہ ہے جو دوسرو ں تک اپنے خیالات پہنچانے میں ایک بڑا کردار ادا کرتی ہے تو اگر آپ بہتر کمیونیکیڑبننا چاہتے ہیں تو ابھی کتابوں کا مطالعہ شروع کردیں ۔یہ آپ کے ذخیرہ الفاظ کو بڑھاتا ہے بلکہ لکھائی کی ساخت کیا ہوئی ہے اور کس طریقے سے خیالات کا اظہار کیا جاتا ہے زبانی صلاحیتوں کو بڑھانے کے علاوہ مطالعہ کتاب خاص طور پر دوسروں کے جذبات و احساسات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔بعض اوقات ہم مطالعہ کرتے ہوئے کرداروں کے حالات میں خود کھو جاتے ہیں جب ان کو خطرہ ہوتا ہے تو ہم ان کے بارے میں فکر مند ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم ان کے جذبات و احساسات کو گہرائی سے محسوس کر رہے ہوتے ہیں ۔مطالعہ ہمارے اندر شعور اور ہمارے ذہن کو وسیع کرنے کا ایک بہترین طریقہ ہے ۔


وسیع پیمانے پر پڑھنے سے آپ مختلف صورتحال اور چیزوں کا تجربہ حاصل کر سکتے ہیں جو تجربہ آپ نے اپنی حقیقی زندگی میں نہیں کیئے ۔قلم کاروں کی کتابیں لوگوں کے تجربات اور حکمت سے بھری پڑی ہیں جو انہوں نے لوگوں کے تجربے ،مشاہدے کے ذریعے حاصل کیئے ہیں ۔
مطالعہ کرنا ذہنی دباؤ سے چھٹکارا حاصل کرنے کا بہترین طریقہ ہے یہ ایک خاموشی ہے لیکن آپ کے دماغ کو سرگرمی میں ملوث رکھتی ہے اور آپ اپنی پریشانیاں بھول جاتے ہیں ۔ماہر نفسیات نے تجویز کیا ہے کہ یہ پٹھوں کو آرام پہنچاتی ہے اسکے برعکس اور بھی بہت ساری وجوہات ہوتی ہیں خود کو آرام پہنچانے کی جیسے ٹی وی دیکھنا،وڈیو گیم کھیلنا،پڑھنا یہ بجائے دوسری مصروفیات کے آپ کے ذہنی دباؤ کو کم کرتا ہے ۔

اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ کی پریشانیا ں ہیں وہ انوکھی ہیں اور جو آپکی جھنجھلاہٹ اور غیر یقینی جذبات ہیں جو کسی اور نے تجربہ نہیں کیئے ہونگےتو پھر غالباََ آپ کو کتابیں پڑھنے کی ضرورت ہے اور پھر آپ دریافت کریں گے کہ آپ انہی لوگوں میں سے ہیں جو اس دنیا میں رہتے ہیں ۔حالانکہ آپ کتابیں اس مقصد کےلیے نہیں پڑھ رہے ہوتے کہ آپ کی زبان بہتر ہوجائے یا آپ کا ذہنی دباؤ کم ہو یا آپ ذہین ہو جائیں بلکہ آپ صرف کتابیں پڑھنے کو ایک سرگرمی کے طور پر اور صرف اس کا جو لطف ہے اس کی وجہ سے پڑھ رہے ہوتے ہیں وہ لوگ جو واقعی کتابیں پڑھنے سے پیار کرتے ہیں وہ اسلیئے نہیں کرتے کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ یہ انہیں فائدہ پہنچارہی ہیں بلکہ وہ کتابیں اس کے اپنے خالص لطف کی وجہ سے پڑھتے ہیں آپ اپنے لیئے وہ کتاب کی تلاش کر نے کی کوشش کریں جس میں آپ کو دلچسپی ہو اور آپ واقعی اس کو پڑھ کر لطف اندوز ہو رہے ہو ں تو اگر آپ ایک صحیح کتاب کی تلاش کررہے ہیں تو بہت جدید اور اعلیٰ درجے کے ناول پڑھیں جس کا مطالعہ بامعنیٰ اور دلچسپ ہو ۔اگر آپ اعلیٰ درجے کے ناول میں دلچسپی نہیں رکھتے تو جدید ناول کا اندراج کریں۔


مطالعہ کتب ایک دلچسپ مشغلہ ہے جو آپ کو پوری زندگی فائدہ پہنچاتا ہے مطالعہ کرتے ہوئے آپ لطف اندوز ہوتے ہیں ، معلومات حاصل کرتے ہیں بغیر کسی سرمائے اور بغیر کہیں جائے دراصل آج کل ہر طرح کی کتابیں موجود ہیں جو ہم آسانی سے کسی بھی مکتب سے خرید سکتے ہیں ۔
یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ آپ کہاں موجود ہیں آپ کہیں بھی موجود ہوں آسانی سے کتابیں کھول سکتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک نئی دنیا میں لے جاکر بئے کرداروں سے مل سکتے ہیں ۔کتابیں پڑھنا ہمیشہ سے ایک بھرپور تجربہ رہا ہے اور یہ آپ کو بہت سے مقامات پر عقل مند ،خوشحال محسوس کرواتا ہے۔


Wednesday, 10 April 2019

مارٹن کوبلر کا آخری پیغام۔۔۔۔


مارٹن کوبلر کا آخری پیغام

مارٹن کوبلر کو پاکستان میں بطور جرمن سفیر 10 اگست 2017  کو نامزد کیا 
گیا جس کے بعد انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں سنبھالیں اور خاص طور پر ٹوئٹر پر پاکستان کا منفرد انداز پیش کیا ۔پاکستان میں ٹوئٹر استعمال کرنے والی بڑی تعداد ان سے باخوبی واقف ہے بے شمار ٹوئٹر صارفین ان کے فالورز ہیں۔مارٹن کوبلر اس سے پہلے بھی کئی ممالک میں اپنی سفارتی ذمہ داریاں سرانجام دے چکے ہیں  مگر پاکستان میں اپنا دو سال کا عرصہ منفرد 
انداز سے گزارا اور پاکستانیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔

مارٹن کوبلر کو پاکستان کی روایت، ثقافت،رنگ ، نسل اور زبان   نے بے حد
 متاثر کیا کہی وہ مختلف رنگ و نسل اور طبقات سے تعلق رکھنے والے ہر خاص و عام کے ساتھ خوش دلی سے سیلفی  لیتے دکھائی دیئےتو کہیں پاکستانی لباس زیب تن کیئے متعددبار نظر 
 آئے ۔
پاکستانی کھانے ہوں یاپاکستانی آرٹ ،ادبی میلہ ہو یا فیسٹول ،تاریخی مقامات کی 
سیر ہو یا شمالی علاقہ جات کے خوبصورت منظرہر جگہ ایک مثبت پیغام اور سوچ کا مظاہرہ کیا ۔
دوسال کی اس مدت میں مارٹن کوبلر نے اپنے ٹوئٹس سے پاکستان میں گزارے ہر لمحے کو یادگار بنایا اور ساتھ ہی دنیابھر میں پاکستان مثبت چہرہ دکھانے کے ساتھ ساتھ پاکستان اور جرمنی کے دوطرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا۔پاکستان کے رنگ میں رنگنے والے مارٹن کوبلر کے پاکستان میں گزارے تمام لمحات کو ان کے ٹوئٹر اکا ؤنٹ پر دیکھا جا 
سکتا ہے۔
اپریل 2019 اب جب کہ مارٹن کوبلر کی سفارتی مدت مکمل ہوچکی ہے اپنے وطن لوٹتے ہوئے پاکستان کا روایتی لباس زیب تن کئے پاکستان میں اپنے تمام فالورز کو ٹوئٹر پر وڈیو پیغام دیتےہوئے  کہا۔
"مجھے افسوس ہے کہ آپ لوگوں کے لیے یہ میرا آخری وڈیو پیغام ہے ۔آپ کے خوبصورت ملک میں دوشاندار سال گزارنے کے بعد میں یہ ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ میں بہت اداس دل کے ساتھ واپس جارہا ہوں لیکن یقین رکھیں میں ایک عام سیاح کی حیثیت سے واپس آؤں گا ۔میں نے پاکستان میں شاندار سال گزارےپیشہ ورانہ لحاظ سے بھی فائدہ مند اور ذاتی زندگی کے لحاظ سے بھی آپ کے ملک کی بہت ساری خوبصورتی دیکھی لیکن سب سے بڑھ کر پاکستان کے لوگوں کو جاننے کا موقع ملا  ۔ پاکستان امن اور خوشحالی کی جانب اپنا راستہ بنالے گا میرے دل کا جصہ ہمیشہ پاکستان سے جوڑا رہے گااور  میں نوجوان نسل کے ایک اچھے مستقبل کے لیے دعا گو ہوں"

علاوہ ازیں پاکستان مین آخری لمحہ یادگار بناتے ہوئے اپنی رہائش گاہ کا دروازہ
 بند کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا اور تصاویر شیئر کیں۔

مارٹن کوبلر نے آخری پیغام میں جس
طرح پاکستان اور پاکستانیوں کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا وہ قابل تعریف ہے۔پاکستان کا مثبت چہرہ اجاگر کرنے والے غیر ملکی سفارتکاروں میں مارٹن کوبلر کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

تحریر
انیقہ معین

Monday, 8 April 2019

تبدیلی سرکار اور عوام کا حال زار

تبدیلی سرکار اور عوام کا حال زار

سال 2018 کے انتخابات سے قبل یوں محسوس ہوتا تھا کہ اگر پی ٹی آئی نے اس انتخابات میں فتح حاصل کر لی تو پاکستا ن کے عوام کی زندگیاں بدل جائیں ۔غریب عوام کو ریلیف مل جائے گا 100روپے کی چیز 50 میں مل جایا کرے گی ، یہ تمام امیدیں اس امر میں لگائی گئیں کہ عمران خان نے عوام کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ ریلیف جو مسلم لیگ (ن) نہ دے سکی وہ پی ٹی آئی کی حکومت دے گی اور نئے پاکستان کا خواب دکھایا۔ 

 بہرحال الیکشن کا مرحلہ مکمل ہوگیا پی ٹی آئی حکومت برسراقتدار آگئی اور اب اپنی مدت کے چھ ماہ بھی گزارچکی ہے لیکن وہ امیدیں ،وعدے جو عوام سے کئےگئے تھے وہ پورے اب تک تو ہوتے نظر نہیں آئے ۔حکومت کے برسراقدار آئے آدھا سال مکمل ہوچکا لیکن افراط زر کا پہاڑ عوام کے سرنہ اترا ،ہر ماہ مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے اور اب ملک میں مہنگائی کی شرح 9 اعشاریہ 41 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ 

ادارہ شماریات کےاعداد و شمار کے مطابق فروری کے مقابلے میں مارچ میں مہنگائی کی شرح میں ایک اعشاریہ 42 فیصد اضافہ ہوا، مارچ میں مہنگائی کی شرح 9 اعشاریہ 41 فیصد ریکارڈ کی گئی ، اعداد و شمار کے مطابق جولائی سے مارچ تک مہنگائی کی شرح 6 اعشاریہ 79 فیصدرہی۔ 

ادارہ شماریات کے اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افراط زر کس تیزی سے بڑھ رہاہے جس کے بعد پچھلی حکومتیں اور موجودہ حکومت میں کوئی فرق باقی نہ رہا اگر موجودہ حکومت اور پچھلی حکومت کا موازنہ کیا جائے تواکتوبر 2017 تک جس وقت اسحاق ڈار وزیر خزانہ تھے ڈالر 105 کا تھااب ڈالر 143 کا ہوگیا ہے2017 میں مہنگائی کی شرح 3.8 فیصد تھی آج مہنگائی کی شرح 9.4 فیصد کی بلند ترین سطح پر ہے۔ایک طرف اسٹیٹ بینک روپے کی قدر کو مسلسل گرارہا ہے دوسری طرف شرح سود بڑھ رہی ہے جس کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے کڑوڑوں عوام کے لیے مسائل و مشکالات بڑھا رہی ہے۔ 

  

پاکستان کے عوام کے لیے مہنگائی اور اشیائے خوردونوش میں مسلسل اضافہ نے ہمیشہ سے عوام کو جکڑ رکھا ہے  کبھی پیڑول کی قیمتوں میں اضافہ کبھی اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتیں دکھائی دیں اگر پیپلز پارٹی کے دور کی بات کی جائے جب بھی اس حکومت نے عوام کی روٹی چھینے میں کوئی کسرباقی نہ چھوڑی تھی اور آج بھی اگر افراط زر میں اسی طرح اضافہ ہوا لیکن اس مہنگائی کے دلدل سے عوام نکالنا چاہتی تھی اسی بنیادپر کڑوڑوں پاکستانیوں کی نگاہیں محض عمران خان پر مرکوز تھیں کہ شاید تبدیلی ان کا مقدر بن جائے مگر تبدیلی سرکار سے بھی عوام کو وہی ملا جو پچھلی حکومتیں دیتی آئیں ہیں ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی حکومت آنے والے سالوں میں عوام کو ریلیف دے سکےگی ؟ اگر پی ٹی آئی حکومت عوام کو ریلیف نہ دے سکی تو کیا اگلے الیکشن میں عوام بھی انہیں ریلیف دیں گے؟

تحریر

انیقہ معین

x

Thursday, 6 December 2018

عدم برداشت اور ہمارا معاشرہ



پُرسکون اورپُر رامن معاشرہ کون نہیں چاہتا آج اگر کوئی ہم میں سے کسی سےبھی پوچھا جائےتو ہماری ترجیح ایک 
ایسے معاشرے میں رہنا ہوگی جو امن و سکون کا گہوارہ ہو جہاں میانہ روی ،تحمل مزاجی ، رواداری ،انصاف کرنا ،ایک دوسرے کو معاف کردینا ،برداشت کرنا اور وہ تمام خوبیاں موجود ہوں جو ایک پُر امن معاشرے میں ہوتی ہیں مگر بدقسمتی سے اگر ہم اپنے معاشرے کو دیکھتے ہیں تو ہمارا معاشرہ نا جانے کس راہ پر گامزن ہوتا جارہا ہے معاشر ے میں بڑھتی عدم برداشت میں خوفنا ک حد تک اضافہ ہورہا ہے جس کے باعث نفسیاتی مسائل بھی دن بہ دن جڑپکڑ رہے ہیں۔ 


معاشرے کا بدلتا یہ رُخ جس میں الزامات کی بوچھاڑ، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی جیسے کوئی بڑی بات ہی نہیں ،کبھی سیاست کے نام پر تو کبھی مذہب کو نشانہ بناکر، راہ گزرتے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لوگوں کو ایک دوسرے پر گالم گلوچ کرتے دیکھ تعجب ہوتا ہے کہ ہماری قوم کی اخلاقیات کہیں کہو چکی ہیں اور اگر گھریلوں جھگڑوں کی بات کی جائے تو بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں ایک چند روز قبل ہونے والا افسوس ناک واقع جس میںْ ایک چھوٹی سی بچی کو چائے میں پتی زیادہ ڈالنے پر خاتون نے جس بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا ٌ، ایسی بدترین مثال کسی اور معاشرے میں ملنا مشکل ہیں۔ اس معصوم پر اُس عورت نے اتنی چھوٹی سی بات پر تھپڑوں کی برسات کردی اب جہاں ایسی بے بنیاد باتوں پر ایسا رویہ اختیار کیا جائے گا تو اس معاشرے میں منفی خیالات ،نفسیاتی مسائل اور عدم برداشت کیسے نہ پیدا ہوگی۔ 

آخر لوگوں کے رویے ایسے کیوںہوتے جارہے ہیں ؟ یہ جاننے کے کوشش کی جائے تو ہمارے ملک کی بیشتر عوام اس وقت بے پناہ مسائل کا شکار ہے کوئی ملازمت کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھاتا دکھائی دیتا ہے تو کہیں بے روزگاری ،غربت سینہ تانے کھڑے ہیں ہو نا ہو ہر فرد اس وقت مسائل سے گہرا نظر آتا جو لوگوں کے رویوں میں منفی اثرات مرتب کر رہا ہے جس کے آگے انہوں نے برداشت اور اپنے اخلاقی اقدار کو بالائے طاق رکھ دیا ہے لیکن اگر ہم ہمارے اس معاشرے کا سُدھار چاہتے ہیں تو برداشت اور اخلاقی اقدار سے بالاتر ہونا اشد ضروری ہے۔

بیشک ہمارے معاشرہ بہت سے مسائل سے گہرا ہواہے اور ہمارے عوام بھی بے پناہ مسائل سے دوچار ہیں لیکن ہم بھی تو اسی معاشرے کا حصہ ہیں ہمیں اپنے مسائل کا خود حل نکالنا ہے ایسا ممکن نہیں کہ کسی مسئلے کا کوئی حل نہ ہوہمیں یاد رکھنا ہے کہ تمام مسائل کے باوجود برداشت کا دامن نہیں چھوڑنا۔ اگردیکھا جائے تو معاشرہ بھی تو فرد سے ہی تخلیق ہوتا ہے اور ہم ہی تو وہ فرد ہیں جو معاشرے کو بناتے ہیں ہمارے مثبت رویےلوگوں کے منفی رویوں کو کس قدر تبدیل کرسکتے ہیں اس کا اندازہ شاید ہم خود بھی نہیں لگاسکتے ۔ اگر انفرادی طور پرہی ہم ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں تو بہت بہتری آسکتی ہے ہر فرد توجہ چاہتا ہے اپنی بات کی اہمیت چاہتاہے جب تک ہم ایک دوسرے کا احترام نہیں 
کریں گے اپنے معاشرے کو ان مذکورہ برائیوں سے چھٹکارا دلانا ممکن نہیں۔


 تحریر
 انیقہ معین
x

Monday, 1 February 2016

تعلیم کی ضرورت

تعلیم نسواں تعلیم کسی بھی قوم کے ہر فرد کا بنیادی حق ہے چاہے وہ مرد ہو یا عورت ۔دور جدید کے تناظر میں دیکھا جائے تواس کی ضرورت ،اہمیت وافادیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا آج دنیا جس برق رفتاری سے ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے اس سے اہل علم بخوبی واقف ہیں ،ہمارے معاشرے کے بیشتر گھرانوں میں عورتوں کیے تعلیم حاصل کرنے کو برا سمجھا جاتا ہے جبکہ آج کے دور میں عورت کا تعلیم حاصل کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنامردوں کے لئے ضروری ہے ۔ یہ سچ ہے کہ ایک پڑھی لکھی عورت معاشرے میں ایک بہترین کردار ادا کرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی بھی پیدا کرسکتی ہے۔عورت کو دنیا میں مختلف کردار نبھانے ہوتے ہیں کبھی ماں بن کر کبھی بہن کی صورت میں ، کبھی بیوی کے روپ میں اور کبھی بیٹی بن کر ان تمام مدارج میں اس کی زمہ داریا ں بھی بدلتی رہتی ہیں اسے نئے نئے خیالات سے دوچار ہوتا پڑتا ہے ان تمام مدارج سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے لیئے عورت کا تعلیمی یافتہ ہونا ضروری ہے۔ اب یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاشرے میں ایک بہترین کردار ادا کرنے کے لیے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہے ایک پڑھی لکھی عورت اپنے بچوں کی پرورش میں مثبت ثابت ہو تی ہے۔انسان صحیح تعلیم ک بعد ہی انسان بنتا ہے ورنہ تعلیم اس کے لیئے الزام بن کر رہ جاتی ہے۔

سماجی وثقافتی اقدار کس طریقے سے کراچی میں امن و برداشت کو فراغ دے سکتے ہیں۔۔۔

کسی بھی معاشرے کی خوشحالی ،ترقی و کا میابی کا رازاس معاشرے کے امن و امان اور لوگوں میں ایک دوسرے کے لیئے مذہبی،ثقافتی اور سماجی جذب...